جال میں زر کے اگر موتی کا دانا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جال میں زر کے اگر موتی کا دانا ہوگا
by نظیر اکبر آبادی

جال میں زر کے اگر موتی کا دانا ہوگا
وہ نہ اس دام میں آوے گا جو دانا ہوگا

دام زلف اور جہاں خال کا دانا ہوگا
پھنس ہی جاوے گا غرض کیسا ہی دانا ہوگا

دل کو ہم لائے تھے مژگاں کی صفیں دکھلانے
یہ نہ سمجھے تھے کہ تیروں کا نشانا ہوگا

آج دیکھ اس نے مری چاہ کی چتون یارو
منہ سے گو کچھ نہ کہا دل میں تو جانا ہوگا

بھر نظر دیکھیں گے اس عہد شکن کی صورت
دیکھیے کون سا یارب وہ زمانا ہوگا

خوں بہانے کا مرے حشر میں جب ہوگا بہا
دیکھیں کیا اس گھڑی قاتل کو بہانا ہوگا

وہ بھی کچھ ایسی ہی کہہ دے گا کہ جس سے اس کو
بات کی بات بہانے کا بہانا ہوگا

تلخیٔ مرگ جسے کہتے ہیں افسوس افسوس
ایک دن سب کے تئیں زہر یہ کھانا ہوگا

دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse