جال میں جس کے شوق آئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جال میں جس کے شوق آئی ہے
by شاہ مبارک آبرو

جال میں جس کے شوق آئی ہے
اس کے دل کوں تڑپھ کماہی ہے

جگ کے خوباں ہیں تجھ پے سب مفتوں
تن میں یوسف بھی ایک چاہی ہے

داغ سیں کیوں نہ دل اجالا ہو
چشم کی روشنی سیاہی ہے

اب تلک کھینچ کھینچ جور و جفا
ہر طرح دوستی نباہی ہے

طور کیا پوچھتے ہو کافر کا
شوخ ہے بانکہ ہے سپاہی ہے

ہاتھ میں کہربا کی سمرن دیکھ
رنگ عاشق کا آج کاہی ہے

حال عاشق کا کیا بیاں کیجے
خوار ہے خستہ ہے تباہی ہے

آبروؔ کیوں نہ ہو رہے خاموش
درد کہنے کی یاں مناہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse