جاسوس دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاسوس دوست  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

آ ادھر اے دوست آ تو مجھ سے چھپ سکتا نہیں
سعیٔ خود پوشی ہے کیوں جب میں تجھے تکتا نہیں
گرچہ پہلے صوفیانہ سوانگ نے دھوکا دیا
لیکن آنکھوں کی چمک نے تجھ کو پہچنوا دیا
تیری آنکھوں سے عیاں اب تک وہ برقی لہر ہے
قہر ہے تیری نگاہ تیز ہاں ہاں قہر ہے
الاماں یہ تیری آشفتہ نگاہی الاماں
عمر و عیار کی بھی ہیچ ہیں چالاکیاں
کیوں میں حیران ہوں جو ہر سو آج تیری دھوم ہے
تیری فطرت ابتدا سے ہی تجھے معلوم ہے
تجھ سے مل کر آج مجھ کو مدرسہ یاد آ گیا
پھر وہ طفلی کا مرقع دل مرا تڑپا گیا
مطمئن رہتی نہ تھی تیری نگاہ جستجو
طور تیرے عارفانہ نرم تیری گفتگو
مدرسے میں اپنے ہم عمروں سے وہ سرگوشیاں
بر محل سرگوشیوں کے بعد وہ خاموشیاں
ہم جماعت دوست کہتے تھے تجھے اپنا وعدہ
تجھ کو ان کے خانگی جھگڑوں کی بھی تھی جستجو
یاد ہے مجھ سے بھی کچھ پوچھا تھا اک دن اے شریر
اور پھر کہنے لگا تھا تو مجھے روشن ضمیر
ہر کسی استاد کا تو منہ چڑھا شاگرد تھا
نام تیرا واقعی سب کی زباں کا ورد تھا
ہر کسی استاد کا تو منہ چڑھا شاگرد تھا
نام تیرا واقعی سب کی زباں کا ورد تھا
تیری فطرت قابلیت تیرے کام آ ہی گئی
غیر ملکی حاکموں تک تجھ کو پہنچا ہی گئی
ہیں سیاہ اخبار سارے تیرے نام اور کام سے
شاید اب تو آ رہا ہے خاص ملک شام سے
کر رہا ہے سیر دنیا بن کے اب جاسوس تو
آہ ابنائے وطن سے خاک ہو مانوس تو

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse