جاتے ہے خانقاہ سے واعظ سلام ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاتے ہے خانقاہ سے واعظ سلام ہے
by امداد علی بحر

جاتے ہے خانقاہ سے واعظ سلام ہے
ہم دیر سے چلے صنم اب رام رام ہے

صورت وہ سانولی کہ کنھیا غلام ہے
میرے صنم سے خوب تر اللہ کا نام ہے

در پیش ہے وہ منزل نا طاقتی ہمیں
اٹھے جو ہم سفر ہے جو بیٹھے مقام ہے

صیاد ہی بہار کے پردے میں بلبلو
ہر غنچہ ہے قفس رگ گل تار رام ہے

کیوں کر نہ میری یاد فراموش ہو اسے
سمجھا ہے یار ننگ جسے میرا نام ہے

میرا لہو چٹائے گا جب تک نہ تیغ کو
قاتل کو دہنے ہاتھ کا کھانا حرام ہے

ساقی سے ہو جو دل شکنی بھی تو لطف ہے
ٹوٹا جو شیشہ میری بغل کا تو جام ہے

فصل بہار بات کی بات اس چمن میں ہے
آواز غنچہ رخصت گل کا پیام ہے

مستی ٹپک رہی ہے یہاں بال بال سے
تن میں لہو نہیں یہ مے لعل فام ہے

تحریر حال کی کسے طاقت ہے نامہ بر
ہے جان ہونٹوں پر یہ زبانی پیام ہے

وہ ماہ رو چھپا ہے محاق حجاب میں
عاشق کے زندگی کا مہینہ تمام ہے

سمجھے رہیں بہت مرے کم مائیگی حریف
قطرہ وہ ہوں کہ آج مرا بحرؔ نام ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse