جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
by شکیب جلالی

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے

دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے

فوارے کی طرح نہ اگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے

اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse