جاتری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاتری
by میراجی

ایک آیا گیا دوسرا آئے گا دیر سے دیکھتا ہوں یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی
میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے مجھ کو کیا کام ہے یاد آتا نہیں یاد بھی ٹمٹماتا
ہوا اک دیا بن گئی جس کی رکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے
مگر میرے کانوں نے کیسے اسے سن لیا ایک آندھی چلی چل کے مٹ
بھی گئی آج تک میرے کانوں میں موجود ہے سائیں سائیں مچلتی ہوئی اور
ابلتی ہوئی پھیلتی پھیلتی دیر سے میں کھڑا ہوں یہاں ایک آیا گیا
دوسرا آئے گا رات اس کی گزر جائے گی ایک ہنگامہ برپا ہے دیکھیں جدھر
آ رہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے اور ٹہلتے ہوئے اور رکتے ہوئے پھر سے
بڑھتے ہوئے اور لپکتے ہوئے آ رہے جا رہے ہیں ادھر سے ادھر اور ادھر سے
ادھر جیسے دل میں مرے دھیان کی لہر سے ایک طوفان ہے ویسے آنکھیں
مری دیکھتی ہی چلی جا رہی ہیں کہ اک ٹمٹماتے دئیے کی کرن زندگی کو پھسلتے
ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کیے جا رہی ہے مجھے دھیان
آتا ہے اب تیرگی اک اجالا بنی ہے مگر اس اجالے سے رستی چلی جا رہی
ہیں وہ امرت کی بوندیں جنہیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں ہتھیلی
مگر ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی تھی لپک سے اجالا ہوا لو گری پھر اندھیرا سا
چھانے لگا بیٹھتا بیٹھتا بیٹھ کر ایک ہی پل میں اٹھتا ہوا جیسے آندھی کے
تیکھے تھپیڑوں سے دروازے کے طاق کھلتے رہیں بند ہوتے رہیں
پھڑپھڑاتے ہوئے طائر زخم خوردہ کی مانند میں دیکھتا ہی رہا ایک آیا
گیا دوسرا آئے گا سوچ آئی مجھے پاؤں بڑھنے سے انکار کرتے
گئے میں کھڑا ہی رہا دل میں اک بوند نے یہ کہا رات یوں ہی گزر جائے گی
دل کی اک بوند کو آنکھ میں لے کے میں دیکھتا ہی رہا پھڑپھڑاتے ہوئے طائر
زخم خوردہ کی مانند دروازے کے طاق اک بار جب مل گئے مجھ کو آہستہ آہستہ
احساس ہونے لگا اب یہ زخمی پرندہ نہ تڑپے گا لیکن مرے دل کو ہر وقت
تڑپائے گا میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہوں گا وہ امرت کی بوندیں جنہیں آنکھ
سے میری رسنا تھا لیکن مری زندگی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی جس کی رکتی ہوئی
اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے کہ اس تیرگی میں کوئی بات ایسی نہیں
جس کو پہلے اندھیرے میں دیکھا ہو میں نے سفر یہ اجالے اندھیرے کا چلتا
رہا ہے تو چلتا رہے گا یہی رسم ہے راہ کی ایک آیا گیا دوسرا
آئے گا رات ایسے گزر جائے گی ٹمٹماتے ستارے بتاتے تھے رستے کی
ندی بہی جا رہی ہے بہے جا اس الجھن سے ایسے نکل جا کوئی سیدھا منزل پہ جاتا
تھا لیکن کئی قافلے بھول جاتے تھے انجم کے دور یگانہ کے مبہم اشارے مگر وہ
بھی چلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے شام سے پہلے ہی دیکھ لیتے تھے مقصود کا بند
دروازہ کھلنے لگا ہے مگر میں کھڑا ہوں یہاں مجھ کو کیا کام ہے میرا دروازہ
کھلتا نہیں ہے مجھے پھیلے صحرا کی سوئی ہوئی ریگ کا ذرہ ذرہ یہی کہہ رہا ہے
کے ایسے خرابے میں سوکھی ہتھیلی ہے اک ایسا تلوا کے جس کو کسی خار کی نوک چبھنے پہ بھی
کہہ نہیں سکتی مجھ کو کوئی بوند اپنے لہو کی پلا دو مگر میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے
کام کوئی نہیں ہے تو میں بھی ان آتے ہوئے اور جاتے ہوئے ایک دو تین
لاکھوں بگولوں میں مل کر یوں ہی چلتے چلتے کہیں ڈوب جاتا کے جیسے یہاں
بہتی لہروں میں کشتی ہر ایک موج کو تھام لیتی ہے اپنی ہتھیلی کے پھیلے کنول
میں مجھے دھیان آتا نہیں ہے کہ اس راہ میں تو ہر اک جانے والے کے بس
میں ہے منزل میں چل دوں چلوں آئیے آئیے آپ کیوں اس جگہ
ایسے چپ چاپ تنہا کھڑے ہیں اگر آپ کہیے تو ہم اک اچھوتی سی ٹہنی سے
دو پھول بس بس مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اک
دوست کا راستہ دیکھتا ہوں مگر وہ چلا بھی گیا ہے مجھے پھر بھی
تسکین آتی نہیں ہے کہ میں ایک صحرا کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہوں خود
اپنی نظر میں مجھے اب کوئی بند دروازہ کھلتا نظر آئے یہ بات ممکن نہیں ہے
میں اک اور آندھی کا مشتاق ہوں جو مجھے اپنے پردے میں یکسر چھپا لے
مجھے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے سہانا سماں جتنا بس میں تھا میرے
وہ سب ایک بہتا سا جھونکا بنا ہے جسے ہاتھ میرے نہیں روک سکتے
کہ میری ہتھیلی میں امرت کی بوندیں تو باقی نہیں ہیں فقط ایک پھیلا ہوا
خشک بے برگ بے رنگ صحرا ہے جس میں یہ ممکن نہیں میں کہوں
ایک آیا گیا دوسرا آئے گا رات میری گزر جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse