جائے آسودگی کہاں ہے آج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جائے آسودگی کہاں ہے آج
by داغ دہلوی

جائے آسودگی کہاں ہے آج
جو زمیں کل تھی آسماں ہے آج

تم وہاں تھے تو دل وہاں تھا کل
تم یہاں ہو تو دل یہاں ہے آج

عشق کو ابتدا میں ہم سمجھے
فتنہ آخر الزماں ہے آج

کل ادا دل کا حال ہو کہ نہ ہو
سن لو گویا مری زباں ہے آج

آرزو وصل کی شہید ہوئی
ماتم مرگ نوجواں ہے آج

اس ہدف پر لگائیں گے وہ تیر
دل نشیں داغؔ کا نشاں ہے آج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse