جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
by حفیظ جونپوری

جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
نالے مرے سن لو گے تو فریاد کرو گے

تم بعد مرے غیر کا دل شاد کرو گے
کیوں یاد مری آئے گی کیا یاد کرو گے

پاؤ گے غلام ایک وفادار نہ ایسا
پچھتاؤ گے ہم کو اگر آزاد کرو گے

غصے کا سبب دیر سے میں پوچھ رہا ہوں
دشنام ہی دو گے کہ کچھ ارشاد کرو گے

پچھتاؤ نہ دل دے کے حفیظؔ ان کو تو کہنا
وہ زک یہ حسیں دیں گے کہ تم یاد کرو گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse