جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا
جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا
رنگ کے اڑنے سے عشق اس پر عیاں ہو جائے گا
عیش بزم بے خودی جوش فغاں ہو جائے گا
ہم کہاں ہوں گے جو راز غم عیاں ہو جائے گا
دوسرا عالم بنے تو ہو سکے تسکین حسن
اب ہے جتنا یہ تو صرف امتحاں ہو جائے گا
تا اجل پہنچائے گی یہ ناتوانی ہجر میں
ضعف بڑھتے بڑھتے زور ناتواں ہو جائے گا
میری خاموشی کو ظالم جور بے جا سے نہ چھیڑ
ورنہ ضبط دل تری ضد سے فغاں ہو جائے گا
شوق سے غیروں میں جائے میں نہ ہوں گا بد گماں
خوئے بد سے خود وہ اپنا پاسباں ہو جائے گا
دل نشیں ہے عالم ذوق اسیری کا خیال
اب دل صیاد اپنا آشیاں ہو جائے گا
غم سے میرے گھر میں گنجائش نہیں ہے عیش کی
نغمہ خواں بھی آئے گا تو نوحہ خواں ہو جائے گا
موسم باراں میں کیوں ہے دشت کا قصد اے جنوں
آج کل تو دشت اپنا ہی مکاں ہو جائے گا
خوبئ گفتار سے سمجھے گا کون اس کا جواب
حشر سارا محو انداز بیاں ہو جائے گا
کیا یقیں تھا ہم جو پہنچیں گے وہاں اے جوش اشک
وہم اپنا بڑھ کے اس کا پاسباں ہو جائے گا
کہہ سکے گا کچھ بھی اے راغبؔ نہ اس خاموش سے
بے دہن کے سامنے تو بے زباں ہو جائے گا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |