تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی
Appearance
تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی
کیوں آپ نے عشاق پہ تلوار نکالی
بھولے ہیں غزالان حرم راہ خطا سے
تم نے عجب انداز کی رفتار نکالی
دھڑکا مرے نالہ کا رہا مرغ سحر کو
آواز شب وصل نہ زنہار نکالی
ہر گھر میں کہے رکھتے ہیں کہرام پڑے گا
گر لاش ہماری سر بازار نکالی
آخر مری تربت سے اگی ہے گل نرگس
کیا باد فنا حسرت دیدار نکالی
میں وصل کا سائل ہوں نہ وعدے کا طلبگار
باتوں میں عبث آپ نے تکرار نکالی
جل جائے گا یہ خرمن ہستی ابھی اے دل
سینے سے اگر آہ شرربار نکالی
دل لے کے بھی رعناؔ کا کیا پاس نہ افسوس
کچھ حسرت دل تو نے نہ عیار نکالی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |