تیغ عریاں پہ تمہاری جو پڑی میری آنکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیغ عریاں پہ تمہاری جو پڑی میری آنکھ
by خواجہ محمد وزیر

تیغ عریاں پہ تمہاری جو پڑی میری آنکھ
چشم جوہر سے اجی خوب لڑی میری آنکھ

نہ ہٹی پیٹ پر اس کے جو پڑی میری آنکھ
بن گئی ناف شکم ایسے اڑی میری آنکھ

اشک گل رنگ پروتی ہے مژہ میں کیا خوب
کیا بناتی ہے یہ پھولوں کی چھڑی میری آنکھ

تم رہے بام پہ یاں لگ گئیں آنکھیں چھت سے
رات گنتی رہی ہر ایک کڑی میری آنکھ

اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا
ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ

در دنداں کی بھلا آئنہ کیا جانے قدر
اس کو دکھلاؤ مبصر ہے بڑی میری آنکھ

خط رخسار نہیں پائے نگہ کے ہیں نشاں
عارض صاف پہ سو بار پڑی میری آنکھ

یاد آئے جو ترے تیغ کا مالا قاتل
روکے پیدا کرے موتی کی لڑی میری آنکھ

رخنہ دیوار میں معمار بنانا کیا تھا
تو نے روزن کے عوض کیوں نہ جڑی میری آنکھ

زندگی میں تو کیا مردم آبی مجھ کو
دیکھوں اب کیا ہو مرے ساتھ گڑی میری آنکھ

زلف کی طرح سے زنجیر ہوئی جاتی ہے نرم
پڑتی ہے جوش جنوں میں یہ کڑی میری آنکھ

کیا اسی نے یہ کیا مطلع ابرو موزوں
تم جو کہتے ہو سخن گوئی بڑی میری آنکھ

چشم میں سرمے کا دنبالہ بنا کر بولے
کیوں عصا ٹیک کے ہو جائے کھڑی میری آنکھ

نخل نرگس نہیں تربت پہ نظارے کے لیے
آئنہ دیکھتی ہے راہ کھڑی میری آنکھ

نظر آئے گی زمیں کشتیٔ دریاۓ فنا
دیکھ لینا جو مرے ساتھ گڑی میری آنکھ

باغباں نہر نہیں یاد میں اک کوچے کی
رو رہی ہے یہ گلستاں میں پڑی میری آنکھ

کرتے ہی ایک نگہ میں لب نازک کو کبود
کیا بنا دیتی ہے مسی کی دھڑی میری آنکھ

آئے تیرا جو تصور بھی تو بہر تعظیم
کیا عجب پائے نگہ سے ہو کھڑی میری آنکھ

دل پر داغ ہوا دفن تو لالہ نکلا
اگی نرگس جو گلستاں میں گڑی میری آنکھ

یاد آتے ہیں مجھے حضرت ناسخؔ جو وزیرؔ
کیا لگا دیتی ہے اشکوں کی جھڑی میری آنکھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse