تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا
by جمیلہ خدا بخش

تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا
وہ شہیدوں میں بے عدیل ہوا

چشمۂ اشک چشم پر نم تھا
خلد میں جو کہ سلسبیل ہوا

آبرو دی ہے انکساری نے
خاکساری سے میں جلیل ہوا

خود فرستندہ تھا فرستادہ
وحی لا کر وہ جبرئیل ہوا

ہوں وہ عاصی کہ شعلۂ دوزخ
نار ہی گلشن خلیل ہوا

جز غم یار دشت غربت میں
کون ایسا تھا جو کفیل ہوا

اب خدا ہی سے لو لگاؤں گا
دے کے دل بت کو میں ذلیل ہوا

شب فرقت جو خط لکھا میں نے
زلف جاناں سا وہ طویل ہوا

اے جمیلہؔ یہ دل ہے دشمن جاں
مرگ عاشق کا جو دلیل ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.