تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
by ریاض خیرآبادی

تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
زمزمی سے دے دے زاہد تو ذرا پانی مجھے

دیکھنا نازک بھی ہیں کمسن بھی ہیں بھولے بھی ہیں
شام سے سمجھا رہی ہے ان کی نادانی مجھے

بات بگڑی وصل میں بگڑی جو تو اے زلف یار
کچھ پریشانی تجھے ہے کچھ پریشانی مجھے

ہاتھ اٹھا کر رہ گئے آنکھیں جھکا کر رہ گئے
تیغ عریاں کی پسند آئی جو عریانی مجھے

بن گیا ہوں آئنہ اے جلوہ ہائے برق طور
مل گئی ہے ان کی آئینے کی حیرانی مجھے

آپ اسے درباں بتائیں عذر مجھ کو کچھ نہیں
سونپئے گھر غیر کو اپنی نگہبانی مجھے

خوب روتا ہوں بگولوں سے لپٹ کر دشت میں
یاد آتی ہے جو اپنے گھر کی ویرانی مجھے

فصل گل میں رنگ لایا ہے شباب دخت رز
چھیڑتی ہے آ کے راتوں کو یہ مستانی مجھے

بول اٹھا جوبن کسی سے بھی نہیں دبنے کا میں
سونپئے سرکار اب اپنی نگہبانی مجھے

راز سربستہ رہا کب چاک دامانی کا حال
اے صبا دکھلا نہ اپنی پاک دامانی مجھے

وائے قسمت پڑ گئی کیسی گرہ تقدیر میں
عقدۂ مشکل نظر آتی ہے آسانی مجھے

اب کہاں تقدیر میں ہیں گھونٹ شہد و شیر کے
یاد آتی ہے کسی شے کی فراوانی مجھے

چشم رحم اے ساقیٔ کوثر کہ اب ملتا نہیں
تشنگان کربلا کے نام پر پانی مجھے

شاہ دوراں حضرت حامدؔ علی خاں کے سوا
کون ہے جس کی توجہ سے ہو آسانی مجھے

روز افزوں ہو ترقی دولت و اقبال کی
اور مل جائے در دولت کی دربانی مجھے

چاہتا ہے قیس سے اچھی رہے شکل ریاضؔ
بن چکا میں کیوں بناتا ہے ارے مانی مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse