تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے
by ثاقب لکھنوی

تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے
کیجیے کیا کہ لگی دل کی بری ہوتی ہے

منع کرتا ہے تڑپنے سے قفس میں صیاد
نالے کرتا ہوں تو گردن پہ چھری ہوتی ہے

ہر بدی کرتی ہے انسان کو دنیا میں ہلاک
سم قاتل ہے وہ عادت جو بری ہوتی ہے

اہل دل عشق میں دم مار سکیں کیا ممکن
رگ جاں کے لئے ہر سانس چھری ہوتی ہے

بیٹھ کیوں بادہ کشوں میں کہ ہوں گم ہوش و حواس
صحبت اہل خرابات بری ہوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse