تیزی ترے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیزی ترے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا  (1920) 
by علیم اللہ

تیزی ترے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا
ابرو کی شکایت دم خنجر سے کہوں گا

ہم رنگ شمع عشق میں تیرے ہوں ولیکن
یہ سوز جگر آتش مجمر سے کہوں گا

دیکھا ہوں میں جس روز سے تجھ حسن کا جھلکا
ہے دل میں کبھی جامۂ انور سے کہوں گا

تنگی جو ترے پستہ دہن کی ہے سراسر
سربستہ سخن غنچۂ جوہر سے کہوں گا

سیراب نہ ہوں تجھ لب شیریں سے اگر میں
یہ تشنہ لبی چشمۂ کوثر سے کہوں گا

بوجھا ہے علیمؔ آج کہ ہے حسن کا تو گنج
یہ خوش خبری عاشق بے زر سے کہوں گا


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.