تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
by امیر مینائی

تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے

خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے

کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے

چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے

نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے

صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے

میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse