تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
Appearance
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے
نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے
صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے
میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |