تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
by وحشت کلکتوی

تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
ترکیب دل نے درد کو درماں بنا دیا

صد شکر آج ہو گئی تکمیل عشق کی
اپنے کو خاک کوچۂ جاناں بنا دیا

کوتاہی کوئی دست جنوں سے نہیں ہوئی
دامن کو ہم کنار گریباں بنا دیا

چھوڑی ہے جب سے میں نے سلامت روی کی چال
دشواریوں کو راہ کی آساں بنا دیا

اے مشعل امید یہ احسان کم نہیں
تاریک شب کو تو نے درخشاں بنا دیا

حسن آفریں ہوا ہے تصور جمال کا
دل کو ہوائے گل نے گلستاں بنا دیا

زہد اور اتقا پہ مجھے اپنے ناز تھا
خود میں نے تجھ کو دشمن ایماں بنا دیا

آئینۂ جمال کو دیکھوں گا کس طرح
اس نے تو پہلے ہی مجھے حیراں بنا دیا

وہ امتیاز حسن ہے معنی و لفظ کا
وحشتؔ کو جس نے غالبؔ دوراں بنا دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse