تیرے وعدے کا اختتام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے وعدے کا اختتام نہیں
by قلق میرٹھی

تیرے وعدے کا اختتام نہیں
کہ قیامت پہ بھی قیام نہیں

بے وفائی تمہاری عام ہوئی
اب کسی کو کسی سے کام نہیں

کس لیے دعویٔ زلیخائی
غیر یوسف نہیں غلام نہیں

وصل کے بعد ہجر کا کیا کام
دور گردوں کا انتظام نہیں

کون سنتا ہے نالہ و فریاد
چرخ کو خوف انتقام نہیں

خال لب دیکھ کر ہوا معلوم
کوئی دانہ بغیر دام نہیں

آپ میں کیوں کہ آؤں جب کہ تو آئے
خلوت خاص بزم عام نہیں

نالہ کرتا ہوں لوگ سنتے ہیں
آپ سے میرا کچھ کلام نہیں

جس جگہ ہے وہاں بھی ہے بہتان
کہ کسی جا ترا مقام نہیں

روز فرقت کو روز حشر نہ جان
شام پر بھی تو اختتام نہیں

ہے خدا ہی قلقؔ جو آج بجھے
صبح ہوتے نہیں کہ شام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse