تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
Appearance
تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
گو کہ ہو تاب انتظار کسے
اک نظر بھی ہے دید مفت نظر
اتنی فرصت بھی اے شرار کسے
جوں نگیں یاں سوائے روسیہی
دہر کرتا ہے نامدار کسے
دل تو ڈوبا اب اور دیکھیں ڈبائیں
یہ مری چشم اشکبار کسے
تیرے وعدوں کو میں سمجھتا ہوں
دھوکا دیتا ہے میرے یار کسے
تو بغل سے گیا تھا دل بھی گیا
اور لے بیٹھوں درکنار کسے
میں تو کیا اور بھی سوائے صبا
تیرے کوچے تلک گزار کسے
دیکھتا ہی نہیں وہ مست ناز
اور دکھلاؤں حال زار کسے
خوب دیکھے اثرؔ نے قول و قرار
اب ترے قول پر قرار کسے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |