تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
by میر محمدی بیدار

تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
ہم سری رکھتے ہیں ابرو بھی دم شمشیر سے

دیکھ یہ کرتا ہے غم کی لذتیں ہم پر حرام
ہو سمجھ کر آشنا اے نالہ ٹک تاثیر سے

ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں
کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے

سوز دل کیونکر کروں اس شوخ کے آگے بیاں
شمع کی مانند جلتی ہے زباں تقریر سے

گرچہ ہوں بیدارؔ غرق معصیت سر تا بہ پا
پر امید مغفرت ہے شبر و شبیر سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse