تیرے رہنے کو مناسب تھا کہ چھپر ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے رہنے کو مناسب تھا کہ چھپر ہوتا
by ظریف لکھنوی

تیرے رہنے کو مناسب تھا کہ چھپر ہوتا
کہ نہ چوکھٹ تری ہوتی نہ مرا سر ہوتا

قسمت نجد کا گر قیس کمشنر ہوتا
لیڈی لیلیٰ کی ہوا خوری کو موٹر ہوتا

غیر مل جل کے اٹھا لیتے کہ تھے بے غیرت
گو پہاڑ آپ کے احسان کا چھپر ہوتا

چائے میں ڈال کر عشاق اسے پی جاتے
در حقیقت لب معشوق جو شکر ہوتا

ملک الموت پہ جھلنے کو بناتا میں چنور
طائر روح کی دم میں جو کوئی پر ہوتا

لے ہی لیتا لب دلدار کا بوسہ اڑ کر
کاش عاشق جو بنایا تھا تو مچھر ہوتا

ٹھوکریں غیر کے مرقد پہ لگاتا کیوں کر
بوٹ کی جا پہ جو تو پہنے سلیپر ہوتا

چاٹتا ساری کتابوں کو بغیر از دقت
علم کا شوق جسے ہے جو وہ جھینگر ہوتا

پاس کرتا رزولیوشن کہ حسینوں پہ ہو ٹیکس
میں کبھی میونسپلٹی کا جو ممبر ہوتا

لکھنؤ سے شب یکشنبہ بریلی آتے
پاؤں میں گر نہ ظریفؔ اپنے سنیچر ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse