تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا
by سید یوسف علی خاں ناظم

تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا
چھوڑ کر ہو جس طرح کاسہ کوئی سائل اٹھا

قیس کیا جانے کہ میرا دیکھنا منظور تھا
خود بخود ہو جب ہوا سے پردۂ محمل اٹھا

گریہ نے پہلے ہی اپنا کر رکھا تھا بندوبست
میں اٹھا بھی واں سے چلنے کو تو پا در گل اٹھا

بوسۂ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوں
لونگا کیا نوک زباں سے تری رخ کا تل اٹھا

جب اٹھا خنجر نہ اس سے اس ادا پر مر گئے
ہم سے بھی گویا نہ بار منت قاتل اٹھا

شکوۂ بار غم ہجراں ہے خط میں مندرج
نامہ بر کب ہو کے میرے نامی کا حائل اٹھا

غیر نے آ کر نہیں کی گدگدی گر خواب میں
نیند سے کیوں اس طرح ہنستا ہوا کھل کھل اٹھا

گرچہ رکھتا ہوں کہیں اور پاؤں پڑتا ہے کہیں
پر غنیمت ہے کہ ہے منہ جانب منزل اٹھا

اشک گو آتش نہیں ناظمؔ مگر تیزاب ہے
دیکھ چشم تر سے اپنی آستیں غافل اٹھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse