تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
Appearance
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں
قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!
اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں
نشۂ رنگ سے ہے واشُدِ گل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اہلِ تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
سادہ پُرکار ہیں خوباں غالبؔ
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |