تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل
by نظیر اکبر آبادی

تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل
تاب سے تاب رخ سے رخ نور سے نور ظل سے ظل

یوسف مصر سے مگر ملتے ہیں سب ترے نشاں
زلف سے زلف لب سے لب چشم سے چشم تل سے تل

جتنے ہیں کشتگان عشق ان کے ازل سے ہیں ملے
اشک سے اشک نم سے نم خون سے خون گل سے گل

جب سے موا ہے کوہ کن کرتے ہیں اس کا غم سدا
کوہ سے کوہ جو سے جو سنگ سے سنگ سل سے سل

یار ملا جب اے نظیرؔ میرے گلے، تو مل گئے
جسم سے جسم جاں سے جاں روح سے روح دل سے دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse