تیرے آنے کا احتمال رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے آنے کا احتمال رہا
by میر اثر

تیرے آنے کا احتمال رہا
مرتے مرتے یہی خیال رہا

غم ترا دل سے کوئی نکلے ہے
آہ ہر چند میں نکال رہا

ہجر کے ہاتھ سے ہیں سب روتے
یاں ہمیشہ کسے وصال رہا

شمع ساں جلتے ہلتے کاٹی عمر
جب تلک سر رہا وبال رہا

مل گئے خاک میں ہی طفل سرشک
میں تو آنکھوں میں گرچہ پال رہا

سمجھئے اس قدر نہ کیجے غرور
کوئی بھی حسن لا زوال رہا

تیرے در سے کوئی بھی ٹلتا ہوں
مجھ کو ہر چند تو تو ٹال رہا

دل نہ سنبھلا اگرچہ میں تو اسے
اپنے مقدور تک سنبھال رہا

پھر نہ کہنا اثرؔ نہ کچھ سننا
کوئی دن گر یوں ہی جو حال رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse