تیرے آنے کا احتمال رہا
Appearance
تیرے آنے کا احتمال رہا
مرتے مرتے یہی خیال رہا
غم ترا دل سے کوئی نکلے ہے
آہ ہر چند میں نکال رہا
ہجر کے ہاتھ سے ہیں سب روتے
یاں ہمیشہ کسے وصال رہا
شمع ساں جلتے ہلتے کاٹی عمر
جب تلک سر رہا وبال رہا
مل گئے خاک میں ہی طفل سرشک
میں تو آنکھوں میں گرچہ پال رہا
سمجھئے اس قدر نہ کیجے غرور
کوئی بھی حسن لا زوال رہا
تیرے در سے کوئی بھی ٹلتا ہوں
مجھ کو ہر چند تو تو ٹال رہا
دل نہ سنبھلا اگرچہ میں تو اسے
اپنے مقدور تک سنبھال رہا
پھر نہ کہنا اثرؔ نہ کچھ سننا
کوئی دن گر یوں ہی جو حال رہا
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |