تیری ہر اک بات ہے نشتر نہ چھیڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری ہر اک بات ہے نشتر نہ چھیڑ
by امداد علی بحر

تیری ہر اک بات ہے نشتر نہ چھیڑ
پکا پھوڑا ہوں میں اے دل بر نہ چھیڑ

میں اگر رویا تو کیا ہاتھ آئے گا
اشک کے قطرے نہیں گوہر نہ چھیڑ

منہ سے کہہ بیٹھیں گے جو ہو جائے گا
ہم سڑے سودائیوں سے ڈر نہ چھیڑ

تیرے قدموں سے لگا ہوں رحم کر
ٹھوکروں سے او بت خود سر نہ چھیڑ

شیشۂ دل چور ہو جائے گا یار
ہے کلام سخت بھی پتھر نہ چھیڑ

خوف کر ہم دل جلوں کی آہ سے
چھیڑنا ہم کو نہیں بہتر نہ چھیڑ

بھڑ کا چھتا ہے دل سوراخ دار
اس کی آہیں طیش ہیں دلبر نہ چھیڑ

دست نازک کو نہ پہنچے کوئی رنج
جھاڑ کانٹوں کا ہوں میں لاغر نہ چھیڑ

بے مزا باتوں سے دل اکتا گیا
چھیڑے سے اب دم ہے ہونٹوں پر نہ چھیڑ

بوئے خوں آتی ہے اس تقریر سے
ذکر غیروں کا مرے منہ پر نہ چھیڑ

وے کہ روئے گا ہنسی اچھی نہیں
چھیڑ میں کچھ ہو نہ جائے شر نہ چھیڑ

تیری آہیں یار کو ناساز ہیں
ساز اپنا اے دل مضطر نہ چھیڑ

حشر برپا کر کے لیٹا ہوں ابھی
سونے دے او فتنۂ محشر نہ چھیڑ

کہہ وہ مشاطہ سے افعی ہے وہ زلف
اس کے کاٹے کا نہیں منتر نہ چھیڑ

روئے گا ڈاڑھی کو ڈاڑھیں مار کر
محتسب رندوں کو منہ چڑھ کر نہ چھیڑ

خوش نہ ہوگا کوئی سوتا چونک کر
بحرؔ تو غافل کو سمجھا کر نہ چھیڑ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse