تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے
by خواجہ میر درد

تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے
یوں ہی خدا جو چاہے تو بندے کی کیا چلے

کس کی یہ موج حسن ہوئی جلوہ گر کہ یوں
دریا میں جو حباب تھے آنکھیں چھپا چلے

ہم بھی جرس کی طرح تو اس قافلے کے ساتھ
نالے جو کچھ بساط میں تھے سو سنا چلے

کہہ بیٹھیو نہ دردؔ کہ اہل وفا ہوں میں
اس بے وفا کے آگے جو ذکر وفا چلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse