تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
by میر حسن دہلوی

تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
ورنہ اس آدمی سے کیا خاک ہو سکے ہے

تو ہی سمجھ سمجھ کر کر دے معاف ہم کو
تیرا حساب ہم سے کب پاک ہو سکے ہے

خطرہ نہیں کسی کا جو چاہے کر سکے ہے
تجھ سا کوئی جہاں میں بے باک ہو سکے ہے

رونے کو میرے جلدی ٹک دیکھ کھول آنکھیں
اب تک ہے چشم میری نمناک ہو سکے ہے

لاکھوں کا دل جلایا لاکھوں کا جی کھپایا
تجھ سے کوئی زیادہ سفاک ہو سکے ہے

وہ جلد دستیوں کے جاتے رہے زمانے
اب ہاتھ سے گریباں کب چاک ہو سکے ہے

جو کچھ شراب میں ہیں کیفیتیں نشے کی
تجھ میں مزا یہ کوئی تریاک ہو سکے ہے

اس ماہرو کو باہم کر دے حسنؔ سے اک شب
گردش سے تیری اتنا افلاک ہو سکے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse