تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
by شوق قدوائی

تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
اک آگ ہے سو اتنی جلن آگ میں کب ہے

مانا کہ تم امید وفا کے نہیں قائل
پھر کیا مرے جینے کا کوئی اور سبب ہے

خوش ہوں ترے کینے سے کہ شرکت سے ہوں محفوظ
جتنا ترے دل میں ہے وہ میرے لئے سب ہے

حاجت نہیں کچھ اور پس مرگ مگر ایک
یعنی مجھے درکار تری جنبش لب ہے

زندہ رہوں کیوں میں کہ زباں ان سے ہو گستاخ
مرنے میں خموشی ہے خموشی میں ادب ہے

ہو ہجر تو پھر گور میں اور گھر میں ہے کیا فرق
جو گور کی ظلمت ہے وہی ہجر کی شب ہے

اظہار وفا ہے تو کس امید پہ اے شوقؔ
تو داد طلب اس سے کہ بیداد طلب ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse