تیری زلفیں غیر اگر سلجھائے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری زلفیں غیر اگر سلجھائے گا
by شاد عظیم آبادی

تیری زلفیں غیر اگر سلجھائے گا
آنکھ والوں سے نہ دیکھا جائے گا

سب طرح کی سختیاں سہہ جائے گا
کیوں دلا تو بھی کبھی کام آئے گا

ایک دن ایسا بھی ناصح آئے گا
غم کو میں اور غم مجھے کھا جائے گا

اے فلک ایسا بھی اک دن آئے گا
جب کیے پر اپنے تو پچھتائے گا

وصل میں دھڑکا ہے ناحق ہجر کا
وہ دن آئیں گے تجھے سمجھائے گا

آ چکے احباب اٹھانے میری لاش
ناز اس کو دیکھیے کب لائے گا

چوٹ کھائے دل کا ماتم دار ہے
میرا نالہ بھی تڑپتا جائے گا

چھوڑ دے ہم وحشیوں کو اے غبار
پیچھے پیچھے تو کہاں تک آئے گا

منتظر ہے جان بر لب آمدہ
دیکھیے کب پھر کے قاصد آئے گا

ہجر میں نالے غنیمت جان لے
پھر تو خود اے ضعف تو پچھتائے گا

نیم کشتہ ہیں تو ہیں پھر کیا کریں
کچھ اگر بولیں تو وہ شرمائے گا

جوش وحشت تجھ پہ صدقے اپنی جان
کون تلوے اس طرح سہلائے گا

اور بھی تڑپا دیا غم خوار نے
خود ہے وحشی کیا مجھے بہلائے گا

راہرو تجھ سا کہاں اے خضر شوق
کون تیری خاک پا کو پائے گا

باغ میں کیا جائیں آتی ہے خزاں
گل کا اترا منہ نہ دیکھا جائے گا

میری جاں میں کیا کروں گا کچھ بتا
جب تصور رات بھر تڑپائے گا

کیوں نہ میں مشتاق ناصح کا رہوں
نام تیرا اس کے لب پر آئے گا

دل کے ہاتھوں روح اگر گھبرا گئی
کون اس وحشی کو پھر بہلائے گا

کھو گئے ہیں دونوں جانب کے سرے
کون دل کی گتھیاں سلجھائے گا

میں کہاں واعظ کہاں توبہ کرو
جو نہ سمجھا خود وہ کیا سمجھائے گا

تھک کے آخر بیٹھ جائے گا غبار
کارواں منہ دیکھ کر رہ جائے گا

دل کے ہاتھوں سے جو گھبراؤگے شادؔ
کون اس وحشی کو پھر سمجھائے گا

کم نہ سمجھو شوق کو اے شادؔ تم
اک نہ اک بڑھ کے یہ آفت لائے گا

ہے خزاں گل گشت کو جاؤ نہ شادؔ
گریۂ شبنم نہ دیکھا جائے گا

کچھ نہ کہنا شادؔ سے حال خزاں
اس خبر کو سنتے ہی مر جائے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse