تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا
by سراج اورنگ آبادی

تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا
سب عاشقوں کی صف میں وو ہی سرخ رو ہوا

تجھ زلف کے خیال سیں کیوں کر نکل سکوں
ہر پیچ و خم نمونۂ طوق گلو ہوا

تیرے نگہ کا تیر ہے از بس کہ موشگاف
ممنوں ہر ایک زخم سیں میں ہو بہ ہو ہوا

رشتے سیں موج گل کی ہوائے بہار میں
سب بلبلوں کا چاک گریباں رفو ہوا

سورج کا رنگ چاند سری کا ہوا سفید
جس صبح کوں سوار وو خورشید رو ہوا

جس کی زباں میں عشق کے افسوں کا ہے اثر
ہر حرف اس کا موج پری ہو بہ ہو ہوا

برجا ہے گر کہوں میں اسے شیشہ آتشی
چشم سراجؔ آئینۂ شعلہ رو ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse