تیری الفت شعبدہ پرواز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
by بیدم وارثی

تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
آرزو گر ہے تمنا ساز ہے

پھر حدیث عشق کا آغاز ہے
آج پھر گویا زبان راز ہے

گنج اسرار ازل ہے باغ دہر
پتا پتا دفتر صد راز ہے

جان دے دی ان پہ اور زندہ رہے
اپنے مرنے کا نیا انداز ہے

ہوشیار اے ناوک افگن ہوشیار
طائر جاں مائل پرواز ہے

رخصت اے عقل و خرد ہوش و حواس
شوق وصل یار کا آغاز ہے

میرے نالے سن کے فرماتے ہیں وہ
یہ اسی کی دکھ بھری آواز ہے

جس کو سب سمجھے ہیں دشت کربلا
وہ تو میدان نیاز و ناز ہے

ذرے ذرے میں عیاں ہونے کے بعد
آج تک راز حقیقت راز ہے

آپ جانچیں مجمع عشاق میں
ان میں بیدمؔ سا کوئی جاں باز ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse