تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے
by رنجور عظیم آبادی

تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے
سوا اس کے کہیں ہم کیا خدا ہی سمجھے ویلیم سے

بہار جرمنی اب کوئی دم میں ہوتی ہے آخر
نہیں یہ وار اس کے حق میں کم ونڈ آف آٹم سے

جو مارے جانے سے بچ بھی گئے اس جنگ یورپ میں
وہ بے شک بہرے ہو جائیں گے توپوں کی دھما دھم سے

ہوئیں تعلیم پا کر بیبیاں اب لیڈیاں خاصی
بدل ڈالیں نہ بیگم کو کیوں وہ میڈم سے

ہوئیں آزاد قید شرع سے تعلیم کے صدقے
پکڑ کر دست نامحرم نہ کیوں اتریں وہ ٹمٹم سے

پڑے یارب کسی دیو جفا جو سے اسے پالا
اڑایا جس نے فوٹو اس پری کا میرے البم سے

میں جنٹلمین ہوں معشوقہ بھی مس مل ہو یا مس ہل
غرض ہے زہرہ خانم سے نہ کام اقبال بیگم سے

رہا ان کے سروں میں گر یہی سودا رقابت کا
ہلاک اک دن نہ کر ڈالیں کہیں اعدا مجھے بم سے

اکیلا میں سب اعدا کی خبر لینے کو کافی ہوں
میں کیوں ڈرنے لگا اے یار ان کے الٹی میٹم سے

بیاض اپنی نہیں پڑھ سکتے گو ضعف بصارت سے
سناتے ہیں غزل ہم حافظے کی میمورنڈم سے

جو میجر جائزہ لینے کو پہنچا اپنے لشکر میں
ہوئے کان اس کے بہرے ہر طرف کے شور ولکم سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse