تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
by خواجہ میر درد

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے

آہ بس مت جی جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے

جوں شرر اے ہستیٔ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse