تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
Appearance
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
واں طعنہ تیر یار یہاں شکوہ زخم ریز
باہم تھی کس مزے کی لڑائی تمام شب
رنگیں ہیں خون سر سے وہ ہاتھ آج کل رہے
جس ہاتھ میں وہ دست حنائی تمام شب
تالو سے یاں زبان سحر تک نہیں لگی
تھا کس کو شغل نغمہ سرائی تمام شب
یک بار دیکھتے ہی مجھے غش جو آ گیا
بھولے تھے وہ بھی ہوش ربائی تمام شب
مر جاتے کیوں نہ صبح کے ہوتے ہی ہجر میں
تکلیف کیسی کیسی اٹھائی تمام شب
گرم جواب شکوۂ جور عدو رہا
اس شعلہ خو نے جان جلائی تمام شب
کہتا ہے مہروش تمہیں کیوں غیر گر نہیں
دن بھر ہمیشہ وصل جدائی تمام شب
دھر پاؤں آستاں پہ کہ اس آرزو میں آہ
کی ہے کسی نے ناصیہ سائی تمام شب
مومنؔ میں اپنے نالوں کے صدقے کہ کہتے ہیں
ان کو بھی آج نیند نہ آئی تمام شب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |