تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
by ریاض خیرآبادی

تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
اے شیخ یہاں کون ہے میں چور ہوں یا آپ

دیوانوں کے سر ہو گئی کیا زلف دوتا آپ
وہ جا کے گلے اپنے لگا لائے بلا آپ

ہنس ہنس کے مجھے آپ عبث کوس رہے ہیں
رو رو کے مرے واسطے مانگیں گے دعا آپ

اڑتے بھی اگر ہم تو قفس لے کے نہ اڑتے
صیاد قفس سوئے چمن اڑ کے چلا آپ

جو اٹھ نہیں سکتے تھے گئے اٹھ کے لحد میں
بیٹھے رہیں اب گھر میں لئے عذر حنا آپ

جاتے نہیں ہم مست کبھی اٹھ کے حرم سے
آتی ہے یہاں اڑ کے مئے ہوش ربا آپ

کیوں پھر گئیں کمبخت کی آنکھیں دم آخر
رکھتے تھے بہت غیر سے امید وفا آپ

آواز مری بیٹھی ہے اے حضرت زاہد
کیوں بہر اذاں آج دباتے ہیں گلا آپ

ہلکا سا غلاف ایک تھا صیاد قفس پر
تھی اور نہ کچھ روک رکی مجھ سے صبا آپ

ہم دل میں اتاریں گے یہ کہتی ہیں نگاہیں
آ جائیں کسی طرح لب بام ذرا آپ

قابو کا تمہارے بھی نہیں جوش جوانی
بے چھیڑے ہوئے ٹوٹتے ہیں بند قبا آپ

محتاط ریاضؔ آپ جوانی میں بہت ہیں
پیری میں بھی لوٹیں گے جوانی کا مزا آپ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse