تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
by مختار صدیقی

تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
دل کی شرافت ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی

سچ کہتے ہو ہم ایسے کہاں اور سوز و گداز عشق کہاں
سچ ہے مرے آئینۂ دل میں کوئی کبھی تصویر نہ تھی

اب جو اچاٹ ہوئی ہے طبیعت شاید اب ہم رخصت ہیں
بن کارن بے بات وگرنہ ایسی کبھی دلگیر نہ تھی

اہل جنوں کو فصل خزاں سے اب کے بھی گو نہ ربط رہا
اب کے بہار وہ آئی کی جس کی بوئے گل بھی سفیر نہ تھی

آخر غیرت نے سمجھایا نومیدانہ زیست کریں
باقی ہر تدبیر تو کی جو اپنے خلاف ضمیر نہ تھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse