تھی آسماں پہ میری چڑھائی تمام رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھی آسماں پہ میری چڑھائی تمام رات
by سید یوسف علی خاں ناظم

تھی آسماں پہ میری چڑھائی تمام رات
پھینکا کیا ہوں تیر ہوائی تمام رات

وہ مے پرست ہوں کہ نہ پائی اگر شراب
کی خون دل سے کار روائی تمام رات

ہم خانۂ عدو ہے مبارک رہے اسے
جھگڑا تمام روز لڑائی تمام رات

کیا خوش رہا میں دوست کی تصویر جان کر
تھی کل جو مہ کی جلوہ نمائی تمام رات

بکھری رہی ہے شب مرے بازو پہ زلف یار
کرتا رہا ہوں غالیہ سائی تمام رات

بڑھتا رہا بدن میں مرے دم بہ دم لہو
سینے پہ تھا وہ دست حنائی تمام رات

تھا میرے حوصلے سے زیادہ غم فراق
اک داستان اس کو سنائی تمام رات

شرم ستم نے وصل میں کیسا ستم کیا
شکل اس نے کل مجھے نہ دکھائی تمام رات

سچے ہیں اپنے وعدے کے آتے وہ خواب میں
ناظمؔ مجھی کو نیند نہ آئی تمام رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse