تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
by قلق میرٹھی

تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
یا رب کہیں وہ غفلت فریاد بے کساں ہو

یا قہر ہے وہ شوخی یا پردہ ہے نظر کا
دل میں تو اس کا گھر ہو اور آنکھ سے نہاں ہو

یہ شور بھر رہا ہے فریاد کا جہاں میں
جو بات لب پہ آئی الٹی پھری فغاں ہو

کس کس دعا کو مانگیں کیا کیا ہوس نکالیں
اک جاں کدھر کدھر ہو اک دل کہاں کہاں ہو

برگشتگیٔ قسمت یہ چھیڑ کیا نکالی
جو مدعائے دل ہو وہ مدعیٔ جاں ہو

مقدور تک تو اپنے تجھ سے نبھائیں گے ہم
بے جان و دل ہیں حاضر گر قصد امتحاں ہو

صیاد میں نہیں ہوں گم کردہ آشیاں ہوں
اے ہم صفیرو بولو کس جا ہو اور کہاں ہو

اے آہ دل سے اٹھ کر لب پر ہے کیا تأمل
جا شورش زمیں ہو آشوب آسماں ہو

مٹ مٹ کے بھی ہمارا اک بن رہے گا ساماں
اجڑے اگر بہاراں آبادیٔ خزاں ہو

جب بیٹھنے پہ آئے اے ضعف بیٹھ رہیے
پھر کیا ہے یہ تکلف اس کا ہی آستاں ہو

تو ہی رہے گی بلبل یا میں ہی اس چمن میں
یا تیرا ہی ہو قصہ یا میری داستاں ہو

میرے سخن میں کیا ہے کچھ خال و خط بیاں ہے
پر دل سے اس کے پوچھے جو کوئی نکتہ داں ہو

میرا سلام کہنا جھک کر قلقؔ وہی ہے
اس کی گلی میں بیٹھا موزوں سا جو جواں ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse