تھکا لے اور دور آسماں تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھکا لے اور دور آسماں تک
by ریاض خیرآبادی

تھکا لے اور دور آسماں تک
پھر آخر گردش قسمت کہاں تک

بڑی اس دل کی بیتابی یہاں تک
ہمیں ہمیں ہم ہیں زمیں سے آسماں تک

دم وعدہ انہیں ہے بار ہاں تک
زباں تھک جائے جو اے بے زباں تک

مجھے پینا پڑے آخر وہ آنسو
جو بھر جاتے زمیں سے آسماں تک

کوئی سو بار اڑے سو بار بیٹھے
قفس سے یوں ہم آئے آشیاں تک

گلا بھی تھا کسی کا راز کوئی
کہ آ کر رہ گیا میری زباں تک

سلامت ہیں اگر میرے پر و بال
قفس جائے گا اڑ کر آشیاں تک

مری بیداریاں بیکار کیوں جائیں
انہیں پہنچا دو چشم پاسباں تک

کچھ اس نے اس طرح کاٹی مری بات
کہ ٹکڑے ہو گئی میری زباں تک

جنوں سے ہم نہ کوتاہی کریں گے
ہمارا ہاتھ پہنچے گا جہاں تک

خدایا میرے سجدے دور ہی سے
پہنچ جائیں کسی کے آستاں تک

سہارا کچھ تو درماندوں کو ہوتا
پہنچ جاتے جو گرد کارواں تک

مری فریاد سن کر چپ رہیں گے
اسے پہنچائیں گے وہ آسماں تک

مجھی پر چھوڑ دو میری مئے تلخ
مزا اس کا ہے کچھ میری زباں تک

کلیسا و حرم دونوں ہیں آباد
مرے ناقوس تک میری اذاں تک

کچھ ایسا ربط ہے صیاد کے ساتھ
ہمیں ہم ہیں قفس سے آشیاں تک

ہمیں ٹھکراتے جائیں جو وہاں جائیں
پہنچ جائیں یوں ہی ہم آستاں تک

معاصی کے سوا دو دو فرشتے
انہیں لادے پھروں یا رب کہاں تک

پہنچ جاؤں جو یا رب میکدے میں
مرا پانی بھرے پیر مغاں تک

وہ خوگر نالہ دشمن کا ہو جائے
نہ سنتا ہو جو حرف داستاں تک

ریاضؔ آنے میں ہے ان کے ابھی دیر
چلو ہو آئیں مرگ ناگہاں تک

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse