تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے
بنایا ہے چڑیوں نے جو گھونسلہ
سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا
گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب
قدم ہی قدم طے ہوا ہے سفر
گئیں لحظے لحظے میں عمریں گزر
سمندر کی لہروں کا تانتا سدا
کنارے سے ہے آ کے ٹکرا رہا
سمندر سے دریا سے اٹھتی ہے موج
سدا کرتی رہتی ہے دھاوا یہ فوج
کراروں کو آخر گرا ہی دیا
چٹانوں کو بالکل صفا چٹ کیا
برستا جو مینہ موسلا دھار ہے
سو یہ ننھی بوندوں کی بوچھار ہے
درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے
یوں ہی پتے پتے سے مل کر بنے
ہوئے ریشے ریشے سے بن اور جھاڑ
بنا ذرے ذرے سے مل کر پہاڑ
لگا دانے دانے سے غلے کا ڈھیر
پڑا لمحے لمحے سے برسوں کا پھیر
جو ایک ایک پل کر کے دن کٹ گیا
تو گھڑیوں ہی گھڑیوں برس گھٹ گیا
لکھا لکھنے والے نے ایک ایک حرف
ہوئیں گڈیاں کتنی کاغذ کی صرف
ہوئی لکھتے لکھتے مرتب کتاب
اسی پر ہر اک شے کا سمجھو حساب
ہر اک علم و فن اور کرتب ہنر
نہ تھا پہلے ہی دن سے اس ڈھنگ پر
یوں ہی بڑھتے بڑھتے ترقی ہوئی
جو نیزہ ہے اب تھا وہ پہلے سوئی
جلاہے نے جوڑا تھا ایک ایک تار
ہوئے تھان جس کے گزوں سے شمار
یوں ہی پھوئیوں پھوئیوں بھرے جھیل تال
یوں ہی کوڑی کوڑی ہوا جمع مال
اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح و شام
بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |