تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے
by اسماعیل میرٹھی

بنایا ہے چڑیوں نے جو گھونسلہ
سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا
گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب
قدم ہی قدم طے ہوا ہے سفر
گئیں لحظے لحظے میں عمریں گزر
سمندر کی لہروں کا تانتا سدا
کنارے سے ہے آ کے ٹکرا رہا
سمندر سے دریا سے اٹھتی ہے موج
سدا کرتی رہتی ہے دھاوا یہ فوج
کراروں کو آخر گرا ہی دیا
چٹانوں کو بالکل صفا چٹ کیا
برستا جو مینہ موسلا دھار ہے
سو یہ ننھی بوندوں کی بوچھار ہے
درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے
یوں ہی پتے پتے سے مل کر بنے
ہوئے ریشے ریشے سے بن اور جھاڑ
بنا ذرے ذرے سے مل کر پہاڑ
لگا دانے دانے سے غلے کا ڈھیر
پڑا لمحے لمحے سے برسوں کا پھیر
جو ایک ایک پل کر کے دن کٹ گیا
تو گھڑیوں ہی گھڑیوں برس گھٹ گیا
لکھا لکھنے والے نے ایک ایک حرف
ہوئیں گڈیاں کتنی کاغذ کی صرف
ہوئی لکھتے لکھتے مرتب کتاب
اسی پر ہر اک شے کا سمجھو حساب
ہر اک علم و فن اور کرتب ہنر
نہ تھا پہلے ہی دن سے اس ڈھنگ پر
یوں ہی بڑھتے بڑھتے ترقی ہوئی
جو نیزہ ہے اب تھا وہ پہلے سوئی
جلاہے نے جوڑا تھا ایک ایک تار
ہوئے تھان جس کے گزوں سے شمار
یوں ہی پھوئیوں پھوئیوں بھرے جھیل تال
یوں ہی کوڑی کوڑی ہوا جمع مال
اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح و شام
بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse