تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا
by شوق قدوائی

تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا
مانند ہوا پھاند کے دیوار گیا تھا

پھرتا ہوں میں بیدل مرا دل کیوں نہیں دیتے
کیا تم سے جوا کھیل کے میں ہار گیا تھا

سودے کو نہ پوچھ آیا تھا تو ناز سے جس دن
گیسو ترا اس دن مرے سر مار گیا تھا

دل سے نہ سہی آئے تو میت پہ وہ آخر
آتے نہ تو مرنا مرا بے کار گیا تھا

خود میں نے جتایا ہے اسے حشر کا میداں
مشہد ہی سے میں اس کا طرف دار گیا تھا

برچھا تھا کہ تیر اپنی نظر سے یہ ذرا پوچھ
سینے میں کچھ اس پار سے اس پار گیا تھا

مجبور ہوا وہ جو پڑا زلف کا پھندا
شوقؔ اس کے وہاں ہو کے گرفتار گیا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse