تکلم جو کوئی کرتا ہے فانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تکلم جو کوئی کرتا ہے فانی
by گویا فقیر محمد

تکلم جو کوئی کرتا ہے فانی
ہماری اور تمہاری ہے کہانی

جنوں میں یاد ہے اک بیت ابرو
کہاں ہے اب دماغ شعر خوانی

مآل عاشق و معشوق ہے ایک
سنا ہے شمع سوزاں کی زبانی

نشاں ہم بے نشانوں کا نہ پایا
صبا نے مدتوں تک خاک چھانی

وہ عاشق ہوں نہ آئے نیند مجھ کو
سنوں جب تک نہ یوسف کی کہانی

نہیں بچتا ہے بیمار محبت
سنا ہے ہم نے گویاؔ کی زبانی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse