تکلف ہے مراد دل کا دل پر بار ہو جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تکلف ہے مراد دل کا دل پر بار ہو جانا
by ثاقب لکھنوی

تکلف ہے مراد دل کا دل پر بار ہو جانا
محبت کیا ہے مرنے کے لئے تیار ہو جانا

نہ کام آیا ان آہوں کا فلک کے پار ہو جانا
مرے سونے سے مشکل تھا ترا بیدار ہو جانا

نظر ملتے ہی ان سے آ گیا سارا اثر دل میں
اسے آتا نہ تھا پہلے کبھی بیمار ہو جانا

وفا کا راہبر ہے تودۂ خاکی کی جان اس کو
کماں کش دل ہے آگے اک ذرا ہشیار ہو جانا

یہ طوفاں اشک کا کم ہو تو سمجھوں ڈوب کر ابھرا
اسی مطلب کو سب کہتے ہیں بیڑا پار ہو جانا

تہ شمشیر جائے‌‌ مردم دیدہ ہے دیکھ اے دل
یوں ہی تو بھی اسی دن کے لئے تیار ہو جانا

ذرا سی اک نگاہ عشق میں آنکھوں سے گرتا ہے
بہت آسان ہے انسان کا بیکار ہو جانا

دل صیاد سے شکوہ کروں کیا سہل ہے اس کو
عدو پھولوں کا ہو کر ہمزیان خار ہو جانا

ہوا جو کچھ ہوا ممنون ہوں صہبائے غفلت کا
قفس میں آ کے اب بیکار ہے ہشیار ہو جانا

یہ کیسی ناتوانی ہے کہ دل محسوس کرتا ہے
مرے کاندھوں پہ خود میرے ہی سر کا بار ہو جانا

نظر کو ایک جنبش اور دے اے دیکھنے والے
اشارے پر ہے ان زخموں کا دامن دار ہو جانا

بہم ہیں بے حسی و حس کہ دل کو خواب آتا ہے
کبھی شق ہو کے در ہونا کبھی دیوار ہو جانا

تمہارے زعم میں رہرو کا رستے سے گزرنا ہے
کسی چھوٹے ہوئے ناوک کا دل کے پار ہو جانا

ترا آوازۂ حسن سخن اچھا نہیں ثاقبؔ
نظر پڑتی ہے تجھ پر اک ذرا ہشیار ہو جانا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse