تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
by صفی لکھنوی

تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
چھری تھی میرے لیے جو شکن تھی بستر کی

عرق عرق ہیں جو گرمی سے روز محشر کی
پناہ ڈھونڈتے ہیں میرے دامن تر کی

ہوا گمان اسی شوخ سست پیماں کا
اگر ہوا سے بھی زنجیر ہل گئی در کی

اسی طرف ترے قرباں نگاہ شرم آلود
مجھی پہ تیز ہو یہ باڑھ کند خنجر کی

خرام وہ جو ہلا دے جگر فرشتوں کا
نگاہ وہ جو الٹ دے صفوں کو محشر کی

سجائی حضرت واعظ نے کس تکلف سے
متاع زہد و ورع سیڑھیوں پہ منبر کی

عبور بحر حقیقت سے جب نہیں ممکن
کنارے بیٹھ کے لہریں گنوں سمندر کی

سنے گا کون سنی جائے گی صفیؔ کس سے
تمہاری رام کہانی یہ زندگی بھر کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse