تپش عشق یا تیر کی گرمی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تپش عشق یا تیر کی گرمی
by عصمت اللہ عصمت بیگ

جس کسی نے ان دنوں کوئی دوا ایجاد کی
بس یہ سمجھو اس نے اک بستی نئی آباد کی
پھوڑ کر سر جیل میں بے چارہ مجنوں مر گیا
اور صدائیں ہر طرف ہیں یار زندہ باد کی
کیا بتاؤں اے طبیبو عشق کی تم کو تپش
بس سمجھ لو جیسے گرمی تیر اور خورداد کی
لیجئے آئے ہیں مجنوں مجھ کو دینے درس عشق
آپ کی صورت تو دیکھو ہت ترے استاد کی
قرض تو بے شک لیا پر ہم نے کس کس سے لیا
یاد کچھ آتا نہیں یہ کیفیت ہے یاد کی
قیس آخر مر گیا سوز درون عشق سے
کھا گئی افسوس اس پودے کو گرمی کھاد کی
دیکھنا آخر سر بازار رسوا کر دیا
روز واعظ تم دعا مانگا کرو اولاد کی
مادر گیتی نے عصمتؔ کچھ مری پروا نہ کی
ساس کرتی ہے خوشامد کہتے ہیں داماد کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse