تو ہے کعبہ میں تو پھر دل میں گزر کس کا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو ہے کعبہ میں تو پھر دل میں گزر کس کا ہے
by جمیلہ خدا بخش

تو ہے کعبہ میں تو پھر دل میں گزر کس کا ہے
لا مکاں تیرا اگر ہے تو یہ گھر کس کا ہے

روکنے آئیں فرشتے تو میں رک جاؤں گا
طالب دید ہوں تیرا مجھے ڈر کس کا ہے

صاف قدموں سے ترے جا کے لپٹ جائے گا
تیرے عاشق کے سوا ایسا جگر کس کا ہے

دل تو آغاز محبت میں ہوا ہے تیرا
اپنی گردن پہ ہے جو بار یہ سر کس کا ہے

قیس وحشی کا بنایا مجھے ثانی کس نے
عشق صادق کا نہیں ہے تو اثر کس کا ہے

تیرے انکار نے ڈالا ہے تحیر میں مجھے
دل میں اور آنکھوں میں در پردہ گزر کس کا ہے

کیا تماشا ہے جمیلہؔ کہ وہ پوچھے مجھ سے
دشت غربت میں یہ دل خاک بسر کس کا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse