تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد
by نظیر اکبر آبادی

تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد
پھر کس سے کریں ہم تری بیداد کی فریاد

تیشے کی وہ کھٹ کھٹ کا نہ تھا غلغلہ یارو
کی غور تو وہ تھی دل فرہاد کی فریاد

کل رات کو اس شوخ کی جا کر پس دیوار
اک درد فراہم نے جو بنیاد کی فریاد

سنتے ہی کہا اس نے کہ ہاں دیکھو تو اس جا
کس نے یہ بلکتی ہوئی ایجاد کی فریاد

فریاد نظیرؔ آگے ہی اس کے ہے بہت خوب
واں دیکھنے کا دیکھنا فریاد کی فریاد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse