تو ہی انصاف سے کہہ جس کا خفا یار رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو ہی انصاف سے کہہ جس کا خفا یار رہے
by عیش دہلوی

تو ہی انصاف سے کہہ جس کا خفا یار رہے
اپنے جینے سے نہ کس طرح وہ بے زار رہے

زخم دل چھیلے کبھی اور کبھی زخم جگر
ناخن دست جنوں کب مرے بیکار رہے

ان جفاؤں کا مزہ تم کو چکھا دیویں گے
ہاں اگر زندہ ہم اے چرخ جفاکار رہے

مے کدے میں ہے بڑی یہ ہی مغاں کی پیری
کہ بس اس چشم سیہ مست سے ہشیار رہے

جلتے بھنتے رہے ہم بزم بتاں میں لیکن
شمع ساں اس پہ بھی سر دینے کو تیار رہے

یوں تو کیا خواب میں بھی یار کا ملنا معلوم
اپنے گر آہ یہی طالع بیدار رہے

ایک جا سینے میں ان دونوں کا رہنا ہے محال
یا یہ دل ہی رہے یا آہ شرربار رہے

اس سے دل خاک ہو امید حصول مطلب
جس سے اک بوسے پہ سو طرح کی تکرار رہے

لے کے پیکاں سے ترے تیر بتا تو قاتل
خون میں ڈوبے نہیں کب تا لب سوفار رہے

جنس دل آتش الفت میں جلے جو چاہے
پر کسی طرح تری گرمی بازار رہے

بازی عشق میں چپکے رہو کیا خاک کہیں
ایک دل رکھتے تھے پاس اپنے سو بار رہے

ایسا دم ناک میں آیا ہے کہ ہم راضی ہیں
عیشؔ گر سینے میں اس دل کے عوض خار رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse