تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا
by شاہ اکبر داناپوری

تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا
اچھا اچھا ارے او جان کے لیوا اچھا

سیر اچھی ہے ہجوم اچھا ہے میلا اچھا
حق تو یہ ہے کہ ہے دنیا کا تماشا اچھا

سر مرا کاٹ کے کس ناز سے فرماتے ہیں
کس لیا ہم نے یہ خنجر ہے ہمارا اچھا

درد جب اٹھتا ہے مجھ کو بھی اٹھا دیتا ہے
ناتوانی کے لئے ہے یہ سہارا اچھا

پھر چلے غیر کی جانب نگہ ناز کے تیر
کیوں نشانہ وہی پھر آپ نے تاکا اچھا

واہ کیا خوب مرے دل کی لگی ہے قیمت
کہتے ہیں مفت اگر دو تو ہے سودا اچھا

ایک وہ لاکھوں خریدار بڑھے نرخ نہ کیوں
اور پھر نام خدا مال ہے کیسا اچھا

صبح کو لطف ہے تفریح کا دریا کو چلو
وقت خوش سیر خوش آیند تماشا اچھا

مول لو تم مرا دل کھوٹے ہی داموں کو سہی
مجھ کو تو فائدوں سے ہے یہ خسارا اچھا

چار دیوار چمن اپنے لئے زنداں ہے
ہم سے دیوانوں کو ہے باغ سے صحرا اچھا

منقبض ہے جو طبیعت تو چمن جنگل ہے
دل شگفتہ ہے تو گلزار سے صحرا اچھا

دیکھ کر باغ کی دیواروں کو دم گھٹتا ہے
بلبلوں کو یہ مبارک ہمیں صحرا اچھا

مسئلہ ٹھیک ہے یہ جنس کو ہے جنس سے میل
کیوں نہ چاہے تمہیں دل دل ہے ہمارا اچھا

یہ ہے صورت اسے کہتے ہیں خدا داد جمال
حوروں سے ہے تری تصویر کا خاکہ اچھا

دل مرا لیتے ہو قیمت نہیں دیتے مجھ کو
تم سکھی کیسے ہو لینے سے ہے دینا اچھا

روح سے بڑھ کے ترا نیمچہ پیارا ہے مجھے
رگ جاں سے تری تلوار کا ڈورا اچھا

بزم ہستی سے اٹھے جو وہ یہی کہہ کے اٹھے
دل لگا خوب یہاں ہے یہ تماشا اچھا

شیخ ہو یا کوئی سید ہو کوئی ہو اکبرؔ
خوش رہے جس سے خدا ہے وہی بندا اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse