تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا
تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا
اچھا اچھا ارے او جان کے لیوا اچھا
سیر اچھی ہے ہجوم اچھا ہے میلا اچھا
حق تو یہ ہے کہ ہے دنیا کا تماشا اچھا
سر مرا کاٹ کے کس ناز سے فرماتے ہیں
کس لیا ہم نے یہ خنجر ہے ہمارا اچھا
درد جب اٹھتا ہے مجھ کو بھی اٹھا دیتا ہے
ناتوانی کے لئے ہے یہ سہارا اچھا
پھر چلے غیر کی جانب نگہ ناز کے تیر
کیوں نشانہ وہی پھر آپ نے تاکا اچھا
واہ کیا خوب مرے دل کی لگی ہے قیمت
کہتے ہیں مفت اگر دو تو ہے سودا اچھا
ایک وہ لاکھوں خریدار بڑھے نرخ نہ کیوں
اور پھر نام خدا مال ہے کیسا اچھا
صبح کو لطف ہے تفریح کا دریا کو چلو
وقت خوش سیر خوش آیند تماشا اچھا
مول لو تم مرا دل کھوٹے ہی داموں کو سہی
مجھ کو تو فائدوں سے ہے یہ خسارا اچھا
چار دیوار چمن اپنے لئے زنداں ہے
ہم سے دیوانوں کو ہے باغ سے صحرا اچھا
منقبض ہے جو طبیعت تو چمن جنگل ہے
دل شگفتہ ہے تو گلزار سے صحرا اچھا
دیکھ کر باغ کی دیواروں کو دم گھٹتا ہے
بلبلوں کو یہ مبارک ہمیں صحرا اچھا
مسئلہ ٹھیک ہے یہ جنس کو ہے جنس سے میل
کیوں نہ چاہے تمہیں دل دل ہے ہمارا اچھا
یہ ہے صورت اسے کہتے ہیں خدا داد جمال
حوروں سے ہے تری تصویر کا خاکہ اچھا
دل مرا لیتے ہو قیمت نہیں دیتے مجھ کو
تم سکھی کیسے ہو لینے سے ہے دینا اچھا
روح سے بڑھ کے ترا نیمچہ پیارا ہے مجھے
رگ جاں سے تری تلوار کا ڈورا اچھا
بزم ہستی سے اٹھے جو وہ یہی کہہ کے اٹھے
دل لگا خوب یہاں ہے یہ تماشا اچھا
شیخ ہو یا کوئی سید ہو کوئی ہو اکبرؔ
خوش رہے جس سے خدا ہے وہی بندا اچھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |